یورپ میں پہلی جنگِ عظیم کے ایک عشرے کی بعد 1929ء میں کساد بازاری سے پیدا شدہ بحران اور فاشزم کی یلغار نے دُنیا بھر کے ادیبوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اُس وقت نہ صرف یورپ بلکہ امریکا میں بھی ترقی پسند فکر رکھنے والے ادیبوں کے گروپ وجود میں آرہے تھے۔ 1933ء میں جرمنی میں ہٹلر کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد فاشزم کے بڑھتے ہوئے خطرات نے ساری دنیا کے روشن خیال اور انسان دوست ادیبوں کو چونکا دیا تھا، چنانچہ جولائی 1935ء میں پیرس کے مقام پر کلچر کے تحفّظ کے لیے تمام دنیا کے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلائی گئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب دنیا کے وہ سارے ادیب ایک تحریک کی شکل میں متحد ہوگئے جو ترقی پسند خیالات رکھتے تھے۔ اُنہوں نے اس کانفرنس میں یہ طے کیا کہ ادیب و شاعر کو اپنے ذاتی نہاں خانوں سے نکال کر انسانوں کے اجتماعی مفاد اور تہذیب و ثقافت کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ کے لیے رُجعت پسند قوتوں کے مقابل آنا چاہئے اور اپنے فن کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردینا چاہئے۔
اس قومی اور بین الاقوامی پس منظر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ترقی پسند تحریک کے معترضین کا یہ کہنا کہ ترقی پسند ادب کی تحریک باہر سے ایکسپورٹ ہوکر آئی، بالکل بے بنیاد تھا، کیونکہ سجاد ظہیر وغیرہ کے ہندوستان آنے سے قبل ہی اس تحریک کے لیے فضا سازگار ہوچکی تھی کہ بلکہ خاصی پیش رفت ہوچکی تھی۔ جوشؔ کی شاعری میں سرمایہ دار ملائیت اور جاگیرداروں کے خلاف اور خرد افروزی کے حق میں غیر مبہم اظہار اور اقبالؔ کے یہاں ترقی پسندانہ رُجحانات، ترقی پسند تحریک کی آمد کی جانب اشارہ ہیں، پھر ’’ انگارے‘‘ کی اشاعت جس میں پروفیسر احمد علی اور ڈاکٹر رشید جہاں وغیرہ کی کیا کہانیاں شامل تھیں۔ اختر حسین رائے پوری کے مضمون ’ادب اور زندگی‘ کی اشاعت مجنوںؔ گورکھپوری اور نیاز فتح پوری کی تحریریں ترقی پسند ادبی تحریک کے ارتقائی سفر کے اہم ترین مراحل اور سنگِ میل کی حیثیت رکھتی تھی۔
لندن میں ہندوستانی ترقی پسندوں نے 1935ء میں اپنی تحریک کا جو پہلا مینی فسٹو تیار کیا تھا، اُس پر ڈاکٹر ملک راج آنند، سجاد ظہیر، ڈاکٹر جتوئی گھوش، شاکٹر کے ایس بھٹ، ڈاکٹر ایس تنہا اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر کے دستخط تھے۔ اُس مینی فسٹو کا متن آج بھی اپنی معنویت کا حامل ہے :
’’ ہندوستانی سماج میں بڑی بڑی تبدیلیاں ہورہی ہیں، پرانے خیالات اور معقتدات کی جڑیں پھیلتی جارہی ہیں اور ایک نیا سماج جنم لے رہا ہے ہندوستانی ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں ہونے والے تغیّرات کو الفاظ اور ہیئت کا لباس دیں اور ترقی کے راستے پر لگانے میں ممد و معاون ہوں ہندوستانی ادب قدیم تہذیب کی تباہی کے بعد زندگی کی حقیقتوں سے بھاگ کر رہبانیت اور بھگتی کی پناہ میں جا چھُپا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ وہ بے روح اور بے اثر ہوگیا ہے ہیئت میں بھی اور معنی میں بھی، اور آج ہمارے ادب میں بھگتی اور ترکِ دُنیا کی بھرمار ہوگئی ہے، جذبات کی نمائش عام ہے، عقل و فکر کو یکسر نظر انداز بلکہ رد کردیا گیا ہے۔ پچھلی دو صدیوں میں بیش تر اسی طرح کے ادب کی تخلیق عمل میں آئی ہے جو ہماری تاریخ کا انحطاطی دور ہے۔ اس انجمن کا مقصد یہ ہے کہ اپنے ادب اور دوسرے فنون کو پجاریوں اور پنڈتوں اور دوسرے قدامت پرستوں کے اجارے سے نکال کر انہیں عوام سے قریب تر لایا جائے۔ انہین زندگی اور واقعیت کا آئینہ دار بنایا جائے جس سے ہم اپنا مستقبل روشن کرسکیں۔ ہم ہندوستان کی تہذیبی روایات کا تحفظ کرتے ہوئے اپنے ملک کے انحطاطی پہلوؤں پر بڑی بے رحمی سے تبصرہ کریں گے اور تخلیقی و تنقیدی انداز سے اُن سبھی باتوں کی مصوّری کریں گے جن سے ہم اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہندوستان کے لیے ادب کو ہماری تمام موجودہ زندگی کی بنیادی حقیقتوں کا احترام کرنا چاہئے اور وہ ہے ہماری روٹی کا، بد حالی کا، ہماری سماجی پستی کا اور سیاسی غلامی کا سوال ہم اُسی وقت ان مسائل کو سمجھ سکیں گے اور ہم میں انقلابی روح بیدار ہوگی۔ وہ سب کچھ جو ہمیں انتشار، نفاق اور اندھی تقلید کی طرف لے جاتا ہے قدامت پسندی ہے اور وہ سب کچھ جو ہم میں تنقیدی صلاحیت پیدا کرتا ہے جو ہمیں اپنے عزیز روایات کو بھی عقل و ادراک کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے اُکساتا ہے، جو ہمیں صحت مند بناتا ہے اور ہم میں اتحاد اور یک جہتی کی قوت پیدا کرتا ہے، اُسی کو ہم ترقی پسند کہتے ہیں۔‘‘
اِس تاریخی اہمیت کے مسودے کے حوالے سے سجاد ظہیر نے انجمنِ پسند مصنّفین کے قیام و تنظیم کے لیے ہندوستان کی بیش تر زبانوں کے ادیبوں سے رابطہ قائم کیا اور اس منشور پر دستخط حاصل کیے نتیجتاً 9 اپریل 1936ء کو لکھنؤ میں وہ تاریخ ساز کانفرنس منعقد ہوئی جس سے ہندوستانی ادبیات کی تاریخ میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ اس کانفرنس کے صدر منشی پریم چند نے اپنے صدارتی خطبے میں ترقی پسند ادبی تحریک کی نوعیت اور مقاصد سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اچھے ادب کی بنیاد سچائی، حسن، آزادی اور انسان دوستی پر ہی قائم ہوسکتی ہے :
’’جس ادب سے ہمارا اذوق صحیح نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوّت اور حرکت پیدا نہ ہو، ہمارا جذبۂ حُسن نہ جاگے، جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال نہ پیدا کرے، وہ آج ہمارے لیے بے کار ہے، اُس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔‘‘
منشی پریم چند کے خطبے کے یہ اختتامی جملے آج بھی ادب و زندگی اور ادب اور سماج کے باہمی رشتوں کی بہترین توجیہ و تفسیر ہیں :
’’ ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں نور ہو، آزادی کا جذبہ ہو حسن کا جوہر ہو، روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت’’ ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں نور ہو، آزادی کا جذبہ ہو حسن کا جوہر ہو، روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے، سلائے نہیں کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔‘‘
کانفرنس میں ترقی پسند مصنّفین کا اعلان بھی پیش کیا گیا اور اتفاقِ رائے سے منظور ہوا۔ اُس اعلان نامے اور اُس کے متن کا مسودہ شروع میں لندن میں تیار ہوا تھا اور جس پر اُس وقت تک کے ہندوستانی ادیبوں سے دستخط لیے گئے تھے، صرف چند لفظوں کا فرق تھا۔
ترقی پسند تحریک نے ہم کو ادب کا عرفان عطا کیا اور ہمارے ذہنوں کی تہذیب کی۔ اُس نے نہ صرف ہمیں ایک نئے تصوّرِ فن سے آگاہ کیا بلکہ ہماری نشوونما کو ایک تازہ طرزِ فکر سے بھی نوازا اور ایک نیا طرزِ احساس بخشا۔ اِس تحریک نے نئی تشریحوں اور تاویلوں سے ادب کے بارے میں چند بنیادی باتوں کا جواب ہمیں اپنے آغازِ سفر میں دے دیا تھا جو کچھ اس طرح کے تھے کہ ادب صرف حسن کی تخلیق ہی نہیں، حقیقت کی تعبیر بھی ہے، ادب صرف تخیّل کی رنگ سازی ہی نہیں، واقعیت کی مینا کاری بھی ہے، ادب محض فراہمیِ مسرت و انبساط کا ذریعہ ہی نہیں، تشہیرِ افکار و خیالات بھی ہے، ادب محض انفرادی دریافت ہی نہیں، سماجی شعور کا عطیہ بھی ہے، ادب ناکامیوں اور نامرادیوں کا نوحہ بھی ہے، خوشیوں اور زندہ اور دھڑکتے ہوئے خوابوں کا گہوارہ بھی ہے اور ادب عافیت کوشی کی مدھم لوری ہی نہیں، احتجاج کا بلند نعرہ بھی ہے۔ترقی پسند ادب انسانی آبادی کا ادب ہے، انسانی مقدر پر استحصالی قوتوں کی عمل داری کے خلاف ادب ہے۔ یہ غیر جانب دار ادب نہیں ہے کہ اپنا رُخ زندگی گریز رجحانات کی جانب منعطف کرکے دعویٰ کرے کہ ادب اجتماعیت پسندی پر یقین نہیں رکھ سکتا کہ اس طرح فن کار کی انفرادیت مجروح ہوجاتی ہے۔ انفرادیت کا تانا بانا تاریخ کی پُر اسرار قوتوں سے جا ملتا ہے جو جبریت(Fatalism) کے نظریے کو جنم دیتی ہیں جبکہ ترقی پسند ادب تاریخ کی پُر اسرار قوتوں کے بجائے جدلّیاتی مادّیت پر قائم ایک ایسا سماجی نظام سامنے لایا جس نے کچلے ہوئے عوام کو اپنی توجہ کا مرکز اور طاقت کا منبع قرار دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نظام نے ایک ملک کے کچلے ہوئے عوام کو دوسرے ممالک کے کچلے ہوئے عوام کے ساتھ ایک ایسی لڑی میں پرودیا جو ناگزیر طور پر ایک دوسرے کی معاونت کرتی ہے۔ اس نئے سماجی نظام نے نظریۂ علم ہی کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اس نظریے کے تحت علم پُر اسرار قوتوں پر فتح پانے کا وسیلہ بن گیا ہے۔ ادب بھی لازمی طو رپر علم اور عمل کے اس انطباقِ کلّی میں ایک ایسا فریق بن چکا ہے جو زندگی کی تفہیم اور اُس کی بنیاد پر زیادہ موثر کردار ادا کرتا ہے۔ ترقی پسند ادب کی ضرورت اور اہمیت ہمارے سماج کے لیے اُتنی ہی بنیادی ہے جس قدر آزادی اور معاشی انصاف کی ، ترقی پسند ادب طبقاتی مراعات کا نظریاتی اعتبار سے مخالف ہے۔ وہ ایسی تبدیلی اور ترقی کا خواہاں ہے جو ان مراعات کو ختم کرنے والی ہو۔ یہ انسان دوست ادب ہے۔ یہ ایسی تبدیلی اور ترقی کا حامی ہے جو انسان کے درمیان استحصالی رشتوں کو ختم کرنی والی ہو، اُنہیں مستحکم کرنے والی نہ ہو۔ آج کی سرمایہ دارانہ کثیر الاقوامی کمپنیاں بھی ترقی اور تبدیلی لائی ہیں لیکن ایسی ترقی اور تبدیلی جو تمام انسانوں کے درمیان استحصالی رشتوں کو مضبوط اور مستحکم کرنے والی ہوتی ہے۔ ایسی ترقی اور تبدیلی آج نو آزاد ممالک کے عوام کے لیے زبردست لعنت بنی ہوئی ہے۔ کوئی انسان دوست ادب ایسی ترقی اور تبدیلی کا استقبال نہیں کرے گا، کیونکہ ترقی پسند ادب کی نظریاتی بنیاد ہی اس پر قائم ہے کہ تبدیلی اور ترقی انسانیت کے لیے رحمت اور اطمینان اور سکون کا باعث ہو زحمت، اضطراب اور انسان کے درمیان بے گانگی کی موجب نہ ہو۔

ترقی پسند تحریک اور ادب پر تنقید اور اعتراضات کا سلسلہ اِس تحریک کے آغاز سے چل رہا ہے اور جاری و ساری ہے۔ پہلے ادب میں مقصدیت پر اعتراض ہوا۔ اُس کے بعد ترقی پسندی پر پروپیگنڈے کا بہتان تراشا گیا۔ جنس پرستی اور فحش نگاری بھی ہمارے کھاتے میں ڈالی گئی اعتراضات کبھی فن کے حوالے سے کیے گئے،کبھی اخلاقی اقدار کے حوالے سے اور کبھی ہنگامی موضوعات کے حوالے سے۔ترقی پسند تحریک پر حملے کی ابتدا کلکتہ کے نیم سرکاری انگریز سرمایہ داروں کے اخبار ’’اسٹیٹس مین‘‘ میں قسط وار دو طویل و عریض مضامین سے ہوتی تھی جو بقولِ سجاد ظہیر یہ مضامین حکومتِ ہند کے سینٹرل انٹیلی جنس بیورو میں لکھے گئے تھے۔ بعد میں نو آبادیاتی ذرائعِ ابلاغ کی جگہ جدید نو آبادیاتی ذرائعِ ابلاغ نے لے لی اور آج منظّم رجعت پرستی کی سب سے بڑی قوت امریکی سامراج نے اِس مہم کی سرپرستی قبول کرلی ہے اور اپنے بین الاقوامی حلیفوں اور مقامی وظیفہ خواروں کے ذریعے ترقی پسند تحریک اور ادب کو نت نئے پہلوؤں سے حرفِ ملامت بنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے۔ بقول جناب علی سردار جعفری ’’ بات در اصل یہ ہے کہ ہمارے معترضین کے لیے وجہِ شکایت ہماری شاعری نہیں بلکہ ہمارا فلسفۂ زیست رہا ہے۔‘‘
ترقی پسندی کے معترضین نے اگر ایک طرف اسالیب کے سلسلے میں ترقی پسندی کو ایک فارمولائی ادب قرار دے کر رد کردیا تو دوسری طرف ایک نیا فارمولا بنادیا اور فن سے توقع کی کہ اُس کے مطابق ڈھلتا چلا جائے۔ یہ فارمولا عرفانِ ذات اور اظہارِ ذات، زمانے سے بے گانگی ترسیل کی ناکامی اور ادب کی مطلق خود مختاری کا تھا۔ یہ خوش گمانی کہ ہم زمانے سے نرالے ہیں اس لیے آپس سے بلند بھی ہیں، نہ جانے کتنے ذہنوں کا زہر بن گئی۔ عرفانِ ذات اور اظہارِ ذات کے واسطے سے فکری وجودیت اور جدیدیت کے فلسفے اور نظریات کو ترقی پسندی کے مدِ مقابل لایا گیا جو در اصل یورپ کے اُس تباہ کن دور کی پیداوار ہے جب باہمی جنگوں اور تباہ کاریوں نے دانش وروں کے ایک حلقے میں مایوسی کی لہر دوڑادی اور اُن تباہ کن حالات کو ابدی اور ازلی تصوّر کرلیا گیا جن کو بدلنا نا ممکن سمجھا گیا۔
مغربی یورپ کی حد تک نظریۂ بیزاری کی عمومی فضا نے وجودیت، مجہول انفرادیت اور نراجیت کو جدیدیت کے نام پر فروغ دیا۔ لسانی اور ما بعدِ نظریات سائنس اور Neorealism کی اصطلاحات کے تحت پھیلائے گئے۔ خواب آور فلسفے مرض الموت میں مبتلا سامراجی نظامِ فکر کی دَین ہیں۔ہمارے یہاں بھی بعض ادیبوں نے اُن کی پیروی کی اور نو آزاد ممالک کے طاقت ور اور توانا ادب کی طرف زیادہ رغبت نہیں دکھائی۔صرف ترقی پسند ادیب اس افتاد سے محفوظ رہے اور اُنہوں نے نو آزاد ممالک کی ادبی تحریکوں سے نہ صرف رشتہ برقرار رکھا بلکہ اُنہیں مزید مضبوط کیا۔ مغربی یورپ اور شمالی امریکا کے بعض اہم ادیبوں نے ادب کی قلم رَو سے انسان کی جلا وطنی پر جس شدو مد سے اصرار کیا تھا ادب کو چیستاں بنانے پر زور دیا اس کا صرف ترقی پسند ادیبوں نے مقابلہ کیا۔ انہوں نے مواد اور ہیئت کی بحث میں مواد اور ہیئت کے امتزاج پر زور دیا اور ادب کی خود مختاری کے بورژو ادیب مغربی یورپ کے زوال آمادہ ادب کی جانب دیکھ رہے تھے۔ اُس زمانے میں ترقی پسند نظریۂ ادب کے خلاف پُر زور مزاحمت کی۔ جس زمانے میں جنوبی ایشیا کے رجعت پسند ادیبوں نے اپنے لیے لاطینی امریکا اور افریقا کے ترقی پسند ادب کو منارۂ نور بنایا۔اُنہوں نے نو آبادیاتی ذہن سے گلو خلاصی حاصل کرتے ہوئے بر صغیر کی خارجی اور سماجی حقیقتوں کو خاطر خواہ اہمیت دی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ترقی پسند ادب کی اخلاقی اور سیاسی اساس اس صدی کی تیسری دہائی کی طرح رجائیت اور شرفِ انسانیت پر استوار ہے۔
اس تاریخی پس منظر اور تناظر میں ترقی پسند تحریک کے مستقبل کے باب میں میری رجائیت اور آرزوئیں نہ تو معنویت سے خالی ہیں اور نہ ضرورت سے بے گانہ۔ترقی پسند تحریک نے انقلابِ اکتوبر 1917ء سے بالیدگی حاصل کی تھی اور ترقی پسند تحریک کا آدرش اسی انقلاب سے عبارت ہے۔ دُنیا کو تبدیل کرنے کا مارکسی فلسفہ اُس وقت تک ہمارے لیے معنویت کا حامل رہے گا جب تک انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ہوتا رہے گا اور جبر و جور اور عدمِ مساوات کی عمل داری قائم رہے گی۔ دنیا کو جبر و جور، عدمِ مساوات اور استحصال سے پاک دیکھنے کا خواب ہمارے آدرش اور ہماری تخلیقیت کا سر چشمہ رہے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ خواب کلیۃً کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوگا اور انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال کسی نہ کسی روپ میں جاری رہے گا مگر ہم اپنے اِس خواب کو اپنی حسّیت، طرزِ احساس اور تخلیقیت کے جذبے سے جدا نہیں کرسکتے ترقی پسند تحریک اِسی خواب کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گی۔
*****
Comments
Post a Comment